Sultan Mehmood Ghaznavi and His Slave (Ayaz)
سلطان محمود غزنوی اور اسکا وزیر آیاز
مولانا رومؒ نے سلطان محمود غزنوی اور آیاز کے تین واقعات لکھے ہیں۔ بڑی عجیب کہانیاں لکھی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ سلطان محمود! ایک نیک بادشاہ تھا۔ اسکے پاس ایک دیہاتی نوجوان آگیا۔ اسکا تعلق دیہات سے تھا۔ تعلیم بھی نہیں تھی اور کچھ ایسی تربیت بھی نہیں تھی۔ مگر جب بادشاہ کے دربار میں آکر تربیت میں لگا تو اس نے اتنی اچھی تربیت کرنی شروع کی کہ تھوڑے دنوں میں بادشاہ کی آنکھوں میں بڑادرجہ پا گیا۔ بادشاہ نے اپنے مقرب بندوں میں شامل کر لیا۔ اب جب پہلے سے مقربیں تھے نا وہ بہت جلتے تھےکہ ہم بڑے خاندانوں والے اور بڑی عقل سمجھ والے تعلیم والے۔ ہم بادشاہ کے مشیر تھے یہ کل کا نوجوان پنا ہیں کہاں سے آگیا دیہات سے اٹھ کے کہ بادشاہ کی اس پے بڑی خاص کرم نوازی ہے۔ چنانچہ انہوں نے پرگرام بنایا کہ ہم بادشاہ سے موقع ملنے پے بات کریں گے۔ انہوں نے بات کی بادشاہ سے بات کی کہ بادشاہ سلامت جو محمبت کی نظر اسکی طرف اٹھتی ہے وہ ہماری طرف ہیں ہے۔ حسب میں ہم اچھے نصب میں ہم اچھے مال ہیں ہم اچھے۔ لیکن محمت کی جو نظر اس کو مل گئی وہ ہمیں نہیں مل رہی۔ بادشاہ نے کہا کہ اچھا میں کسی موقع پے اسکا جواب دوں گا۔
واقعہ نمر ۱
اب بادشاہ نے کیا کیا کہ ایک پھل منگوایا جو بہت کڑوا تھا کاشیں بنوائیں اور وہ ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیں جو اعتراض کرنے والے تھے۔ اور آیاز بھی وہیں بیٹھا تھا۔ تو جس جس کو وہ کاش ملی اس نے منہ ڈالی اور تھو تھو کرنے لگے اور سب کہنے لگے بادشاہ سلامت یہ تو بہت کڑوا ہے۔ سب نے کھانے سے انکار کر دیا لیکن جب آیاز کو دیکھا تو وہ مزے سے کھا رہا تھا۔ بادشاہ نے آیاز سو پوچھا کہ آیاز یہ کاش میٹھی ہے جو اتنے مزے سو کھا رہے ہو۔ تواس نے کہا بادشاہ سلامت ہے تہ کڑوی۔۔ کھاتے کیوں جا رہے ہو۔ تو آیاز نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت میرے دل میں یہ بات آئی کہ جس بادشاہ کہ ہاتھوں سے میں زندگی بھر میٹھی چیزیں لے کر کھاتا رہا اور اگر آج مجھے کڑوی بھی مل گئی تو میں اسکو واپس کیسے کروں۔
کاش کہ یہ ہمارے اندر آ جاتی کہ جس ربِ کائینات کی چیزوں سے ہم ساری زندگی مزے لیتے رہے۔ اگر کوئی اللہ پاک کی طرف سے کوئی آزمائیش بھی آجاتی ہے تو ہم شکوا کیوں کرتے ہیں ۔
واقعہ نمر۲
اب بادشاہ نے سوچا کہ یہ جو لوگ بہت اعتراض کرنے والےتھے کیوں نہ ان کے سامنے کوئی ایسا ہیلہ کرنا چاہہے کہ زرا ان کو بات سمجھ میں آ جائے۔
تو ایک دن بادشاہ آیا اور تو اس نے کہا کہ آج میں تم سب کی عقل کا امتحان لوں گا۔ اور میں دیکھتا ہوں کون کون اس میں پاس ہوتا ہے۔ اب جب بتا دیا تو سب کے سب مہتات ہو گئے۔ تو بادشاہ نے ایک موٹا سارا ہیرا دیکھایا ۔ دیکھو یہ کتنا قیمتی ہے اور ایک ہتھوڑا بھی ساتھ دیا اور سب کو باری باری کہا کہ اس کو توڑ کہ دیکھائو۔ تو جس کو دیا اس نے سوچا کہ یہ اتنا قیمتی ہے کوئی نقص ہیں ہے تو اسکو تو ہیں توڑنا چایے۔ اس پے بادشاہ مسکرایا اور کہا بہت اچھے۔ تو وہ سمجھا میں نے بادشاہ کو امپرس کر لیا۔ چنانچہ دوسرے کو دیا تو اس نے بھی یہی جواب دیااور سب نے باری باری الگ الگ جواب دیا اپنی اپبی سوچکا۔ اور اب جب آیاز کی باری آئی اور آیاز کو کہا کہ اس کو توڑ کے دیکھائو۔ تو آیاز نے اس ہیرے کو نیچے فرش پر رکھا اور دے مارا ہتھوڑا اور ہیرے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ اب جب اتنے قیمتی ہیرے کے ٹکڑے ہو گئے توجتنے بھی اعتراض کرنے والے تھے سب خوش ہوگئے کہ آج اس کی کم عقلی ختم ہوئی۔ بادشاہ نے پوچھا ۔۔۔آیاز تم نے ہیرے کے تکڑے کر دیے۔ تو آیاز نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ ہیرے کو توڑ دو۔ اب میرے سامنے دو چیزیں تھی۔
یا تو اتنے قیمتی ہیرے کو توڑ دیتا ےیا پھر میں انکار کرتا تو آپ کےحکم کو توڑ دیتا ۔۔۔ میری نظر میں آپ کا حکم ایسے سینکڑوں ہیروں سے زیادہ قیمتی تھا لہازا اس ہیرے کو کم قیمت سمجھتے ہوئے میں نے ہیرے کو توڑ دیا اور آپ کے حکم کو نہیں توڑا۔
Sultan Mehmood Ghaznavi and Ayaz. A beautiful story of a King Sultan Mehmood Ghaznavi.
واقعہ نمر ۳
ایک دن ایک معترض بادشاہ کے پاس آیا اور کہا بادشاہ سلامت! یہ جو آپ کا چاہیتا ہے آیاز ہمیں لگتا ہے یہ خزانے سے چیزیں چراتا ہے ۔ یہ چور ہے۔ بادشاہ نے پوچا وہ کیسے؟ اس نے کہا ایک جگہ اسنے الماری بنائی ہوئی ہے۔ اور صبح و شام اس الماری کا دروازہ کھولتا ہے اور یکھتا رہتا ہے۔ اور اس الماری کو تالا لگاکہ چابی اپنے پاس رکھتا ہے ۔ اس لئے بادشاہ سلامت ہمیں تو پکا شک ہے کہ یہ خزانے سے چیزیں چراتا ہے اور اس الماری میں رکھتا ہے۔ تو بادشاہ نے اسی وقت آیاز کو بلا لیا۔ لوگوں کے سامنے بادشاہ نے پوچھا آیاز تمہاری کوئی الماری ہے۔
جی!۔
اس کو تالا لگا کے رکھتے ہو۔
جی!۔
صبح وشام کھول کے دیکھتے بھی ہو۔
جی!۔
لائو اس کی چابی۔
آیاز نے چابی نکال کے دی۔
بادشاہ نے ایک آدمی کو بھیجا کہ جائو اور الماری میں جو کچھ پڑا ہے سب اٹھا کے لے آئو۔ اب آیاز تو مطمئن کھڑا رہا اور جو اعتراض کرنے والے تھے وہ دل میں سوچ رہے تھے کہ اب اس کی چوری کو بادشاہ دیکھتے ہی اس کو دھکے مار کے نکال دے گا۔ تھوڑی دیر بعد جو گیا تھا وہ الماری کھول کے کیا دیکھتا ہے کہ الماری میں ایک پرانا سا لباس ہے اورایک پرانا سا جوتا رکھا ہوا ہے۔ اسکے عللاوہ تو کچھ بھی نہیں۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ آیاز صبح و شام انکو دیکھتا ہے۔ وہ نکال کے بادشاہ کے پاس لے آیا۔ بادشاہ سلامت الماری میں یہ دو چیزیں تھی۔
بادشاہ: بس یہی کچھ تھا؟
آیاز: جی۔
بادشاہ: آیاز یہ تو اتنی قیمتی نہیں کہ ان کو تالے میں رکھو اور صبح و شام دیکھو۔
آیاز: بادشاہ سلامت! یہ میرے لیے قیمتی ہے۔
بادشاہ: کیوںْ؟
آیاز: بادشاہ سلامت! جب میں پہلی مرتبہ آپ کی خرمت میں حاضر ہوا۔ میں دیہاتی سا لڑکا تھا۔ یہ جوتا پہنا تھااور یہ لباس پہنا تھا۔ میں نے انکو اپنے لیے سنبھال کے رکھ لیا۔ اب روز صبح و شام میں دروازہ کھولتا ہوں اور اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ آیاز! بادشاہ کے احسانات کو مت بھولنا۔ تمہیں جو بادشاہ نے رتبا دیا تمھاری اوقات تو یہ تھی۔ میں صبح بھی اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں اور شام بھی اپنے آپکو یاد دلاتا ہوں۔
مولانا لکھتے ہیں کہ کاش کے یہ صفت اللہ پاک ہمیں بھی عطا فرمائے۔ آمیں۔
No comments: